New Year Message

We as a Church (Part 2):

In understanding the church by definition, we will look at Ephesians 1. This appears in the original Greek, Ephesians 1:3 to 14, to be one long sentence, although, in the English translations, the translators have stuck periods at specific points. In Greek, this could flow as one long sentence starting in verse 3 and not ending until the end of verse 14, just linking phrases defining the church. We will look at verses 3 to 14 and understand here the idea of the church and what it says about us as the church.

Remember, the word “church” needs to be replaced in your mind by the word “called.”God has called usd. God has summoned us. We are a gathering of people who have been brought together by divine supernatural power through the work of God in salvation.

Election:

In verse 3, “Blessed be the God and Father of our Lord Jesus Christ, who’s blessed us with every spiritual blessing in the heavenly places in Christ, just as He chose us in Him before the foundation of the world.” We were called before. This association of believing people was called by God, initially chosen by God before the foundation of the world. Obviously, the actual call came in time, but the plan for that call was established in the past. In verse 5, “He predestined us to adoption as sons through Jesus Christ to Himself, according to the kind intention” or good pleasure “of His will.” He predetermined. He predestined us. This speaks of the great doctrine of election, the doctrine of predestination. We were called before the foundation of the world for God. That calling didn’t come until we were born, and we grew up, heard the gospel, and the Spirit prompted us, and we believed and were added to the church. But in the plan of God, that calling was established in eternity past. The passage tells us, verse 4, He chose us, He picked us out for Himself. In eternity past, God chose His church. Here is the first cause of our existence. Jesus said, “I’ll build My church, and as you know, the gates of Hades won’t prevail against it.”

Redemption:

Verse 7, “In Him we have redemption through His blood, the forgiveness of our trespasses, according to the riches of His grace.” We have been called out. That’s redemption. We have been called out of darkness. We have been called out of sin. We’ve been called out of death. We’ve been called out of hell. We are the regenerate church. We are the truly redeemed church. We have been redeemed through His blood. We have received the forgiveness of our trespasses by grace. That’s what makes us the true church.

Sanctification:

Verse 4: “We have been chosen, and we have been redeemed, that we should be holy and blameless before Him.” We have been called from sin; we have been called to holiness. This would be the doctrine of sanctification. The word, the operative word there is “holy, holy.” We’re called to be separated from sin. The Bible says we are called by the Spirit’s power to remain unspotted from the world. We were set apart, as well as being called out, out of sin and darkness. We have been called from unholiness. We are to manifest holiness. One thing that calls people to holiness is an uncompromising attitude. And since we are the ones who have been called out of darkness, called from sin, we mustn’t compromise with the unholy world around us. So you exalt God on the one hand, and you debase the world on the other.

Identification:

Verse 4: “He chose us in Him, in Him.” Verse 5: “He predestined us to the adoption as sons through Jesus Christ to Himself.” Again, we have been, as it were, placed in Christ and adopted as sons. Verse 6: “Accepted by God in the beloved, in the beloved” is a great statement. And what you have here is our identification with Jesus Christ. We are in Christ. We are adopted as sons of God through Christ to Himself. And we have been blessed, “freely blessed, because” – verse 6 – “we are in the Beloved One,” actually in the Beloved One. So, what do you have here? Well, you have several things. First, we have a tremendous identification with God because we’re God’s sons. That’s how intimate it is. We are the children of God, the sons of God, and we ought to conduct ourselves as sons of God should conduct themselves. Ephesians 5:1, “Be imitators of God, as beloved children.” If you are the children of God, then act like it.

We are God’s children; we bear His nature and name and are called to intimacy with Him. And how intimate is that? We are one with Christ, 1 Corinthians 6:17, “He that is joined to the Lord is one spirit.” We are one with Jesus Christ. We have been called into union with God, union with Christ. The Holy Spirit has taken up residence. Our body is the temple of the Holy Spirit. This is identification. We belong to Christ. We belong to God. Our bodies are the temple of the Holy Spirit. Christ in His Spirit dwells within us; God is in us.

So when we teach and talk about Christianity, we’re not talking about simply accepting some dogma mentally; we’re talking about a relationship of intimacy with the living God that ties us to Him in ordinary life, in a common sharing of all divine resources. So, we are identified with God, identified with Christ. Our whole identification and life are bound up with eternal God.

Continued…

نئے سال کا پیغام:

ہم بطورِ کلِیسیا (دُوسرا حِصّہ):

اب ہم کلِیسیا کو تعریف کے اَعتبار سے سمجھنے کے لئے اِفسِیوں 1ب پر غور کرینگے۔ یُونانی زبان کے اصل متن میں، اِفسِیوں 1ب 3آ-14 آیات ایک ہی لمبا جُملہ ہیں، گو کہ انگریزی اور دُوسری زبانوں کے ترجمہ کرنے والوں نے اِس لمبے جُملے میں کہیِں کہیِں وقفے کا نشان لگایا ہے۔ دراصل یُونانی زبان میں 3آ سے، یہ ایک لمبے جُملے کی طرح شُروع ہو کر 14آ کے آخر تک چلتا ہے اور کلِیسیا کی حقیقی تعریف کو فِقرے سے فِقرہ مِلا کر، بیان کرتا ہے۔ ہم 3آ-14آ پر غور کرینگے اور دیکھیں گے کہ یہاں کلِیسیا سے کیا مُراد ہے اور بطور کلِیسیا ہم سے مُتعلِّق، یہ حوالہ کیا بیان کرتا ہے۔

اب یہ بُہت ضرُوری ہے کہ آپ اپنے ذہن میں لفظ “کلِیسیا” کو “بُلائے ہُوئے” کے طور پر یاد رکھیں۔ ہمیں خُدا نے بُلایا ہے۔ ہمیں خُدا نے مُقّرر کِیا ہے۔ ہم ایسے لوگوں کی جماعت ہیں جِسے خُدا نے الہٰی مافوق الفِطرت قُوّت کے ذریعہ سے نجات بخش کام کے وسیلہ سے اکٹھا کِیا ہے۔ اب ہم اِس حوالے کے مُختلِف نُقاط سے کلِیسیا کو سمجھنے کی کوشِش کریں گے۔

اِنتخاب یا چُناؤ:

3آ میں لِکھا ہے “ہمارے خُداوند یِسُوؔع مسِیح کے خُدا اور باپ کی حمد ہو جِس نے ہمکو مسِیح میں آسمانی مقاموں پر ہر طرح کی رُوحانی برکت بخشی۔ چُنانچہ اُس نے ہمکو بنایِ عالَم سے پیشتر اُس میں چُن لِیا تاکہ ہم اُسکے نزدِیک مُحبّت میں پاک اور بے عَیب ہوں۔” ہم پہلے سے بُلائے گئے ہیں۔ بُلائے ہُوئے لوگوں کی اِس جماعت کو، خُدا نے بنائِ عالَم سے پیشتر ہی چُن لِیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اصل بُلاوا تو اپنے مُقّررہ وقت پر ہی آیا لیکن اِس بُلاوے کا منصُوبہ تو گُزشتہ ابدیت میں کِیا جا چُکا تھا۔ 5آ میں لِکھا ہے “اور اُس نے اپنی مرضی کے نیک اِرادہ کے مُوافِق ہمیں اپنے لِئے پیشتر سے مُقرّر کِیا کہ یِسُوؔع مسِیح کے وسِیلہ سے اُسکے لے پالک بیٹے ہوں۔” اُس نے تو یہ پہلے سے ہی طے کر دیا تھا۔ اُس نے ہمارے لئے پہلے سے ہی یہ مُقّرر کر دیا تھا۔ بے شک یہ آیت ہمیں چُناؤ کی عظیم تعلیم سے مُتعلِّق آگاہ کرتی ہے۔ یہ پہلے سے فیصل شُدہ بات تھی۔ ہم بِنائِ عالَم سے پیشتر ہی خُدا کے مقاصد کے لئے بُلائے گئے تھے۔ وہ بُلاوا تب تک نہیں آیا جب تک کہ ہم پیدا ہو کر بڑے نہیں ہو گئے اور ہم نے انجیل کا پیغام سُن نہیں لِیا اور رُوحُ القُدّس کے اُبھارنے پر ہم اُس پر ایمان نہیں لائے اور یُوں ہم کلِیسیا میں شامل کِئے گئے۔ لیکن خُدا کے منصُوبے میں ہمارا بُلاوا بنائِ عالَم سے پیشتر ہی مُقّرر کر دیا گیا تھا۔ 4آ میں یہ حوالہ کہتا ہے کہ اُس نے ہمیں چُن لِیا اور اپنے لئے الگ کر لیا۔ خُدا نے گُزشتہ ابدیت میں اپنی کلِیسیا کا اِنتخاب کِیا۔ ہمارے وجُود کا پہلا سبب یہ ہے۔ یِسُوع نے فرمایا “میں اپنی کلِیسیا بناؤنگا اور عالمِ اَرواح کے دروازے اُس پر غالب نہ آئینگے۔”

مخلصی یا نجات:

7آ میں لِکھا ہے “ہمکو اُس میں اُسکے خُون کے وسِیلہ سے مخلصی یعنی قصُوروں کی مُعافی اُسکے اُس فضل کی دَولت کے مُوافِق حاصِل ہے۔” ہمیں باہر بُلا لیا گیا ہے۔ یہ ہے مخلصی۔ ہمیں تاریکیوں میں سے باہر بُلا لیا گیا ہے۔ ہمیں گُناہ میں سے باہر بُلا لیا گیا ہے۔ ہمیں موت اور جہنُم سے باہر بُلا لیا گیا ہے۔ ہم ایسی کلِیسیا ہیں جو اب نئی مخلُوق ہیں۔ ہم حقِیقی طور پر آزاد کلِیسیا ہیں۔ ہماری مخلصی اُسکے لہُو کے وسیلہ سے ہُوئی ہے۔ ہم نے اپنے گُناہوں کی مُعافی اُسکے فضل سے پائی ہے۔ اِسی سبب سے ہم حقِیقی کلِیسیا ہیں۔

تقدیس یا پاکِیزگی:

4آ میں لِکھا ہے “چُنانچہ اُس نے ہمکو بنایِ عالَم سے پیشتر اُس میں چُن لِیا تاکہ ہم اُسکے نزدِیک مُحبّت میں پاک اور بے عَیب ہوں۔” ہمیں گُناہ سے نکال کر پاکیزگی کا بُلاوا دیا گیا ہے۔ یہاں پر کارگر لفظ ہے “پاک اور بے عیب”۔ ہمیں گُناہ سے الگ ہونے کے لئے بُلایا گیا ہے۔ بائبل بیان کرتی ہے کہ ہمیں رُوح کی قُوّت سے، اِس دُنیا میں، بے داغ زِندگی بسر کرنے کے لئے بُلایا گیا ہے۔ ہمیں برگُزیدہ کِیا گیا ہے اور گُناہ کے اندھیروں سے باہر بُلا لِیا گیا ہے۔ ہمیں ناپاکی سے باہر بُلا لیا گیا ہے۔ سو ہمیں اپنی زِندگی سے اِس پاکیزگی کا اِظہار کرنا ہے۔ ہمارا گُناہ کے ساتھ سمجھوتہ نہ کرنے کا رویّہ لوگوں کو پاکِیزگی کی طرف مائل کرتا ہے۔ اور چُونکہ ہم بُلائے ہُوئے لوگ ہیں جِنہیں تاریکی میں سے باہر بُلا لِیا گیا ہے، گُناہ میں سے باہر بُلا لِیا گیا ہے، اِس لئے یہ ناگُزیر ہے کہ ہم اپنے اِردگرد کی دُنیا کے گُناہوں سے ہرگز سمجھوتہ نہ کریں۔ سو آپ ایک طرف خُدا کو سر بلند کرتے ہیں اور دُوسری طرف دُنیاوی طرز کو رّد کرتے ہیں۔

کلِیسیا کی شناخت:

4آ میں لِکھا ہے “چُنانچہ اُس نے ہمکو بنایِ عالَم سے پیشتر اُس میں چُن لِیا۔۔۔” 5آ یُوں بیان کرتی ہے “۔۔۔اُس نے اپنی مرضی کے نیک اِرادہ کے مُوافِق ہمیں اپنے لِئے پیشتر سے مُقرّر کِیا کہ یِسُوؔع مسِیح کے وسِیلہ سے اُسکے لے پالک بیٹے ہوں۔” ایک بار پِھر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیں، یِسُوع مسِیح میں، لے پالک بیٹوں کے طور پر اَپنایا گیا ہے۔ 6آ میں لِکھا ہے “۔۔۔جو ہمیں اُس عزِیز میں مُفت بخشا۔” یہ ایک عظیم جُملہ ہے۔ یہاں ہمیں مسِیح میں اپنی شناخت نظر آتی ہے۔ ہم مسِیح میں ہیں۔ خُدا نے ہمیں مسِیح میں اپنے لے پالک بیٹے بنایا ہے۔ اور ہم پر فضل کِیا گیا ہے، کیونکہ 6آ کے مُطابِق “ہم اُس عزیز میں” ہیں۔ سو ہم یہاں پر کیا سیکھتے ہیں۔ یہاں پر سیکھنے کو بُہت کُچھ ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ہمیں خُدا میں ایک طاقتور شناخت حاصل ہے کیونکہ ہم خُدا کے بیٹے ہیں۔ یہ ایک گہرا رِشتہ ہے۔ ہم خُدا کے بچّے، اُسکے بیٹے ہیں اور اِسی سبب سے ہمیں اپنا چال چلن اور کردار بھی ایسا رکھنا ہے جیسا خُدا کے فرزندوں کا ہونا چاہئے۔ اِفسِیوں 5ب 1آ میں لِکھا ہے “پس عزِیز فرزندوں کی طرح خُدا کی مانِند بنو۔” اگر آپ خُدا کے فرزند ہیں تو پِھر اپنا چال چلن بھی اِسکے موافِق رکھئے۔

ہم خُدا کے فرزند ہیں؛ ہم اُسکی فِطرت رکھتے ہیں، ہم اُسکا نام رکھتے ہیں، اور ہمیں بُلایا گیا ہے کہ ہم اُسکے ساتھ گہری مُحبّت کا رِشتہ اُستوار کریں۔ 1-کُرِنتِھیوں 6ب 17آ کیمُطابِق ہم حقِیقی طور پر مسِیح کے ساتھ ایک ہیں، لِکھا ہے “اور جو خُداوند کی صُحبت میں رہتا ہے وہ اُسکے ساتھ ایک رُوح ہوتا ہے۔” ہم مسِیح یِسُوع کے ساتھ ایک ہیں۔ ہم بُلائے گئے ہیں کہ مسِیح اور خُدا کے ساتھ ایک ہوں۔ رُوحُ القُدّس نے ہمیں اپنا مَقدِس بنا لیا ہے۔ یہ ہماری شناخت ہے۔ ہم مسِیح کے ہیں۔ ہم خُدا کے ہیں۔ ہمارا بدن رُوحُ القُدّس کا مَقدِس ہے۔ مسِیح اپنے رُوح کے ذریعے ہم میں سکُونت رکھتا ہے۔ خُدا ہم میں بستا ہے۔

سو جب ہم مسِیحیت کی تعلیم دیتے یا اِس سے مُتعلِّق بات کرتے ہیں تو ہم کِسی عام عقیدے کی قبُولیت کی بات نہیں کرتے بلکہ ہم زِندہ خُدا کے ساتھ مُحبّت کے گہرے رِشتے کی بات کرتے ہیں جو ہمیں روزمرّہ کی زِندگی میں اُسکے ساتھ جوڑے رکھتی ہے تاکہ ہم اُسکے تمام الہٰی وسائل کے حِصّے دار بن سکیں۔ سو ہماری شناخت مسِیح اور خُدا ہیں۔ ہماری ساری شناخت، ہماری ساری زِندگی ابدی خُدا کے ساتھ جُڑی ہے۔

یہ پیغام کل بھی جارِی ہے۔۔۔

Similar Posts