New Year Message

We as a Church (Part 1):

As we march into a new year, I want us to go back and regrip what we are as a church, and I want you to understand that we will continue to be this because it is defined for us by the Word of God.

The word “church” in the New Testament is from the Greek word ekklesia. That noun comes from a group verb kaleo, which means “to call.” So ekklesia is “the called,” “the called ones,” and “those called together,” according to Romans 8:28, called according to God’s purpose. We are called together. In Ephesians chapter 4 and verse 1, Paul says, “I therefore, the prisoner of the Lord, entreat you to walk in a manner worthy of the calling with which you have been called.” You are called because you’ve had a calling. And the church is simply the called one. We are the assembly of the called.

This was a very ordinary Greek word, by the way. It can be any assembly of any people called together for anything. Christians gave it its rich meaning. We’re a group specially summoned together by God for His purposes. When you said that, you defined the church. We’re a group of people especially summoned together by God for His purposes. We are not a human organization built by good people. We are not a human organization designed by well-intentioned people. We are not a human organization constructed around some tradition. We are a group of people summoned together by God Himself for His purposes.

So we can say this: a church is an assembly of people called by God. We are an assembly of people called by God. The real identity of the church, then, is determined by divine purpose. God is calling us. God has called us into being. Now, the church then is the assembly of the called. God has charted our course. Our destiny has been planned by God. Our members have been chosen by God. Our purposes have been defined by God. Our ministries have been revealed by God. We are an organization of people, an organism of people assembled by God for divine purposes. That’s why the church is repeatedly identified as the church. And you need to understand the word “church” as “the called ones” or “the assembly of the called ones.”

And as I noted in Ephesians 4:1, we are called because we have received a calling. Down in verse 4, he talks about our calling again. A number of New Testament passages refer again to the fact that God summoned us together. We have been called by God together, Romans 1:6. You also are the called of Jesus Christ to all who are beloved of God in Rome called together as saints. And you find this in 1 Corinthians, 1 Thessalonians, 2 Timothy, 1 Peter, 2 Peter, 1 John, and other places. Even Hebrews 3:1 talks about our heavenly calling. And heaven is a synonym for God; God has called us.

So, if there is anything we need to understand at the outset about the church, God has called us into being. We are a group of people who a divine summons has brought together. We are the handiwork of God for His purposes. It is not, and the church is not an expression of religious genius on the part of man. It is not the result. Our church is not the result of the power of persuasive speech. It is not the result of effective and dynamic leadership. It is not the result of countless programs. It is not the result of some diligence and brilliance combined. The church is the work of God.

Men have never led this church, though men have served it. Pastors have never led it, and pastors have served it. God has always led it through the lordship of Jesus Christ, mediated by the agency of the Holy Spirit through those who serve, both men and women. It is not our church. It is not my church. It is not the pastor’s church. It is not the elder’s church. I have to tell you, it’s not even your church. It’s Christ’s church. He ordained it; He builds it; He leads it. We are called into it, and He is the caller. And this explains really all the goodness, all the blessing, all the success, all the power, all the things that we have seen by way of spiritual richness, it has all come from God. The weaknesses of our fellowship, the failures of our church, on the other hand, are the marks of humanness. Where you see us weak and failing is where you see the hand of men and women. We fail because of us, not Him. And we succeed because of Him, not us.

The single great goal then for the church through all its life has been to let God be at work and to allow the church to be the church. We don’t want the culture to define what we are. We don’t want the society around us to define what we are. We want to be whatever it is that God wants us to be. That’s what we want to be, and nothing less and nothing more. We are the church, that’s what we are. And I find it hard to call certain institutions the church when there is no commitment on their part to let God build the church according to His purpose.

Continued…

نئے سال کا پیغام

ہم بطور کلِیسیا (پہلا حِصّہ):

اب جبکہ ہم ایک نئے سال میں داخِل ہونے کو ہیں تو میں چاہونگا کہ ہم اِس بات پر نظرِثانی کریں کہ ہم بطور کلِیسیا کیا ہیں؟ اور میں چاہتا ہوں کہ ہم اِس بات کو سمجھ جائیں کہ ہمیں ایسا ہی رہنا ہوگا کِیونکہ ہمارا یہ معیّار کلامِ خُدا نے مُقّرر کِیا ہے۔

نئے عہد نامہ میں اِستعمال کِیا گیا لفظ “کلِیسیا” یُونانی زبان کے لفظ ekklēsia سے لِیا گیا ہے۔ یہ اِسم ہے جو فعل کے گرُوپ kalēo سے لِیا گیا ہے جِسکا مطلب ہے “بُلانا”۔ سو کلِیسیا کا مطلب ہے “بُلائے گئے” یا “وہ جو اکٹھے بُلائے گئے ہوں”۔ جیسا کہ رُومیوں 8ب 28آ کیمطابِق “۔۔۔خُدا کے اِرادہ کے مُوافِق بُلائے گئے۔” ہمیں بُلایا گیا ہے۔ اِفسیوں 4ب 1آ میں لِکھا ہے “پس مَیں جو خُداوند میں قَیدی ہُوں تُم سے اِلتماس کرتا ہُوں کہ جِس بُلاوے سے تُم بُلائے گئے تھے اُسکے لائِق چال چلو۔” آپ بُلائے ہُوئے ہیں کیونکہ آپکے پاس بُلاوہ ہے۔ اور کلِیسیا بُلائے ہُوئے لوگ ہیں۔ ہم بُلائے ہُوئے لوگوں کی جماعت ہیں۔

لفظ کلِیسیا ایک عام اور بُہت سادہ سا یُونانی لفظ تھا۔ یہ بُلائے ہُوئے لوگوں کی کوئی سی بھی جماعت ہو سکتی ہے جو کِسی بھی کام کے لئے اکٹھے بُلائے گئے ہوں۔ مسِیحیت میں اِس لفظ کو بھرپُور معنی مِلتے ہیں۔ ہم ایسے خاص لوگوں کی جماعت ہیں جِسے خاص طور پر خُدا نے اپنے مقاصد کے لئے بُلایا ہے۔ ہم کوئی اِنسانی تنظیِم نہیں ہیں جِسکی بُنیاد چند اچّھے لوگوں نے، یا نیک نیّت لوگوں نے ڈالی ہو۔ ہم کوئی اِنسانی تنظیِم نہیں ہیں جِسکی بُنیاد رِوایات پر رکھی گئی ہو بلکہ ہم تو ایسے خاص لوگوں کی جماعت ہیں جِسے خاص طور پر خُدا نے اپنے مقاصد کے لئے اکٹھے بُلایا ہے۔

لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں، کلِیسیا خُدا کی طرف سے بُلائے ہُوئے لوگوں کی ایک جماعت ہے۔ ہم اُن لوگوں کی جماعت ہیں جِنہیں خُدا نے بُلایا ہے۔ اِسکا مطلب یہ ہُوا کہ کلِیسیا کی اصل شناخت اُسکے الہٰی مقصد سے ہوتی ہے۔ خُدا ہمیں بُلا رہا ہے۔ خُدا نے ہمیں اپنے الہٰی بُلاوے کے ذریعے سے وجُود بخشا ہے۔ لہٰذا کلِیسیا خُدا کی طرف سے بُلائے ہُوئے لوگوں کی ایک جماعت ہے۔ ہماری راہیں اور ہماری منزل خُدا کی طرف سے مُتعیّن ہیں۔ ہمارے ممبران خُدا کے چُنے ہُوئے لوگ ہیں۔ ہمارے مقاصِد خُدا کی طرف سے وضع کِئے گئے ہیں۔ ہماری خِدمتیں خُدا کی طرف سے وضع کی گئی ہیں۔ ہم خُدا کے بُلائے ہُوئے لوگوں کی ایسی جماعت ہیں جنہیں خُدا کے مقاصِد کے لئے جمع کِیا گیا ہے۔ اِسی سبب سے تو اِس جماعت کو بارہا کلِیسیا کے طور پر شناخت کِیا جاتا ہے۔ اور آپکو لفظ “کلِیسیا” کو “بُلائے ہُوئے لوگوں کی جماعت” کے طور پر جاننے اور سمجھنے کی ضرُورت ہے۔

اور جیسا کہ میں نے اِفِسِیوں 4ب 1آ کا حوالہ دے کر بتایا تھا کہ ہم اِس لئے بُلائے ہُوئے ہیں کِیونکہ ہمارے پاس بُلاوا ہے۔ 4آ میں وہ دوبارہ ہمارے بُلاوے کی بات کرتا ہے۔ نئے عہد نامہ کے مُتعدد حوالہ جات اِس بات کی تصدیِق کرتے ہیں کہ ہمیں خُدا نے بُلایا اور جمع کِیا ہے۔ آپکو خُدا نے بُلایا اور اِکٹھا کِیا ہے، رُومیوں 1ب 6آ میں لِکھا ہے “جِن میں سے تُم بھی یِسُوع مسِیح کے ہونے کے لِئے بُلائے گئے ہو۔ اُن سب کے نام جو رُومہ میں خُدا کے پیارے ہیں اور مُقدّس ہونے کے لِئے بُلائے گئے ہیں۔” آپ اِن حوالہ جات میں بھی اِس سے مُتعلِّق پڑھ سکتے ہیں۔ 1-کُرِنتھِیوں، 1-تِھسلُنیِکیِوں، 1-پطرس اور 2-پطرس، 1-تیمتِھیس، 1-یُوحنّا اور اُسکے عِلاوہ مزید حوالہ جات میں بھی۔ حتٰی کہ عِبرانیوں 3ب 1آ ہمارے آسمانی بُلاوے سے مُتعلِّق بیان کِیا گیا ہے۔ آسمان دراصل خُدا کے مُترادف کے طور پر اِستعمال ہُوا ہے۔ ہمیں خُدا نے بُلایا ہے۔

سو ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرُورت ہے کہ ہمیں خُدا نے وجُود بخشا ہے۔ ہم ایسے لوگوں کی جماعت ہیں جِنہیں آسمانی احکام کے ذریعے جمع کِیا گیا ہے۔ ہم خُدا کے ہاتھ کی کاریگری ہیں جو اُسی کے مقاصد کے لئے وقف ہے۔ کلِیسیا کِسی مذہبی عقلمند شخص کی اِختراع نہیں اور نہ ہی اُسکی کاوشوں کا اِظہار ہے۔ کلِیسیا کِسی شخص کی قائل کر لینے والی تقریر کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ مؤثر اور مُتحرک قیادت کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ اَن گِنت پروگراموں کا حاصل کردہ نتیجہ نہیں ہے۔ یہ کِسی طرح کی ذہانت کا نتیجہ نہیں ہے۔ کلِیسیا خُدا کا کام ہے۔

ایسی کلِیسیا کی راہنمائی کبھی بھی اِنسانوں نے نہیں کی بلکہ اِنسانوں نے صِرف اِسکی خِدمت کی ہے۔ پاسبان اُسکے راہنما نہیں ہوتے بلکہ اِسکے خِدمت گُزار ہوتے ہیں۔ کلِیسیا کی راہنمائی ہمیشہ سے خُدا نے ہی خُداوند یِسُوع مسِیح کی خُداوندیت میں کی ہے، اور رُوحُ القُدّس اُن لوگوں میں سے ہو کر درمیانی کا کِردار ادا کرتا ہے، جو کلِیسیا کے خِدمت گُزار ہوتے ہیں، وہ مرد ہوں یا خواتین۔ یہ ہماری کلِیسیا نہیں اور نہ ہی یہ میری کلِیسیا ہے۔ یہ بزُرگوں کی کلِیسیا نہیں ہے۔ میں آپکو بتانا چاہتا ہُوں کہ یہ آپکی بھی کلِیسیا نہیں ہے۔ یہ مسِیح کی کلِیسیا ہے۔ مسیِح نے اِسے مخصُوص کِیا، تعمیر کِیا اور وہی اِسکی راہنمائی بھی کرتا ہے۔ ہمیں تو بس اُس میں شمُولیت کا بُلاوا دیا گیا ہے اور بُلاوا دینے والا خُدا ہے۔ اور یہ اُس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ تمام بھلائی، تمام برکتیں، تمام تر کامیابیاں، ساری طاقت اور تمام تر چیزیں جو ہم نے رُوحانی فراوانی کی بدولت دیکھی ہیں وہ سب خُدا کی طرف سے آتی ہیں۔ رفاقت رکھنے میں ہماری کمزوری اور کلِیسیا میں ہماری ناکامیاں دراصل ہماری بشریت کی نِشانیاں ہیں۔ جہاں آپکو ہماری کمزوریاں اور ناکامیاں نظر آئیں وہاں سبب ہمیشہ مردوں اور عورتوں کی دخل اندازی ہوگا۔ ہم اپنی وجہ سے ناکام ہوتے ہیں نہ کہ اُسکی وجہ سے۔ اور ہم اُسکی وجہ سے کامیاب ہوتے ہیں نہ کہ اپنی وجہ سے۔

کلِیسیا کا صِرف ایک بڑا مقصد ہے اور وہ یہ کہ خُدا کو اپنا کام کرنے دے اور بطورِ کلِیسیا اپنی شناخت کو قائم رکھے۔ ہم مُعاشرے کو اجازت نہیں دینگے کہ وہ ہمیں بتائے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ ہم وہی بنینگے جو خُدا چاہتا ہے کہ ہم بنیں، نہ اِس سے کم اور نہ اِس سے زیادہ۔ ہم کلِیسیا ہیں۔ مُجھے اُن تنظیموں کو کلِیسیا ماننے میں دِقّت محسُوس ہوتی ہے جو خُدا کو کلِیسیا کی تعمیر اُسکے مقصد کے تحت کرنے نہیں دیتے۔

یہ پیغام ابھی جارِی ہے۔۔۔

Similar Posts